خدا اور انسان

خدا اور انسان

انسان سے خدائے لم یزل کی محبت کی کوئی انتہا نہیں۔ وہ محبت اس قدر اعلٰی و ارفع ہے کہ اللّٰہ کریم کی رحمت ہمیشہ اس انتظار میں رہتی ہے کہ میرا بندہ میری طرف لوٹے،سچے دل سے میری بارگاہ میں ایک دفعہ  ندامت کے دو آنسو بہاۓ،پھر وہ ذات یہ نہیں دیکھتی کہ بندے کے گناہوں کی انتہا  اور حد و حساب کیا ہے؟ بس اس کی ممتا کو برسنا ہوتا ہے اور بندے کو اپنی رحمتوں کے دیارِ خاص سے نوازا جاتا ہے۔

 پھر وہی مبارک کرم اتنا برستا ہے اتنا برستا ہے کہ انسان کے دامن پر دُور دُور تک کسی بھی گناہ کا داغ باقی نہیں رہتا۔ سبحان اللّٰہ! اُس پیارے رب کی شفقتوں کی انتہا تو دیکھو۔ میرے اللّٰہ کوئی بشر  آپ کے رحم کے خزانوں کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔

اُس شفیق رب کا اپنے بندوں سے پیار لفظوں کا محتاج نہیں ،اس بارگاہ میں لفظ بھی خاموش ہیں، ازل سے خاموش،آنسوؤں کا وضو میسر ہو تو دل سے  خوب خوب محبت کے نغمے گنگناۓ جاتے ہیں۔ وہی محبت جب روح میں اترتی ہے تو وجود کا انگ انگ کھِل اٹھتا ہے ۔
 
مرحبا مرحبادل کے آنگن میں مرحبا۔۔۔۔کیا مٹھاس ہے جو کوئی اُس مالک سے دو لفظ دل کے بولے؟

تنہائیوں میں اپنے رب سے باتیں کرنا کتنا اچھا لگتا ہے  ؟ بندہ مومن کا دل چاہتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے محبوب کی یاد میں میں تڑپتا رہے، اُس کے جلووں کو ترستا رہے ، دل کی ہر آرزو  اُس کے نام ہو ، کوئی ایسا  سخی ملے جو ہر پل اس کے سامنے  اس کے یار کی مالا جھپتا رہے۔ بالآخر بندۂ مومن کے لیے دنیا سے بے رغبتی اور خدا کو راضی رکھنا اس کا  پسندیدہ عمل بن جاتا ہے۔

روح سے باتیں کرنے کا فن اس کے ہاتھ خوب لگ جاتا ہے۔
گوشہ تنہائی ہو اور ذات حق ہو،انسان کا وجود عالم بالا میں پہنچ جاتا ہے۔ ہر عیب دار خواہش مر جاتی ہے، قُدسی بھی جُھک جُھک کر سلامی پیش کرتے ہیں، واہ! کیا بندۂ مومن کا مقام ہے ؟

خدا سے دل کی باتیں کرنا کتنا اچھا لگتا ہے۔ کچھ بھی بچا کے نہ رکھنا، ہر بات کو سیدھے سیدھے  بول دینا، وجود کا سارا بوجھ اتر جاتا ہے، ہواؤں نے جیسے اپنی ہتھیلیوں پہ اُٹھا لیا ہو، آنکھوں نے بھی آنسوؤں سے خوب غسل کیا ہے۔
کس منہ سے تیری عطاؤں کو پُکاروں۔۔۔۔نہ کرم کی ابتدا، نہ رحم کی انتہا۔
از قلم: صداقت علی

Post a Comment

Previous Post Next Post